Categories
Hikayat E Zindagi Inspirational life love Tahreem Writes urdu

تنویم

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی میں اس کے سامنے آ بیٹھی۔ بہت دن بعد ہم یوں روبرو  تھے کہ فرصت اسے بھی تھی۔ فرصت  مجھے بھی تھی۔ 

کہیں سے آ  رہی ہو؟ 

میں نے مرعوبیت سے اسکا جائزہ لیا۔ سیاہ کوٹ ، سیاہ اسٹریٹ پینٹ ، سفید انر، گلے میں بے حد سرخ مفلر سا لپٹا تھا تھا۔ سرخ ہائی ہیلز، اور قندھاری سرخ ہی لپ اسٹک سے لب قاتل لگتے تھے۔ بالوں کی سرخی کی جگہ ڈارک  گولڈن براؤن شیڈ نے لے لی تھی۔ تازہ تازہ ڈائی تھا شاید۔  نفاست سے بنا فرنچ بن۔  بہت کچھ تھا جو بدل گیا تھا۔ مجھ سے نظر نہیں ہٹ سکی۔ 

کیوں؟ کہیں جا بھی تو سکتی ہوں۔ وہ کھلکھلائی۔ میں بھی مسکرائی۔ 

رات میں ہماری ملاقات طے تھی۔ اس لئے ابھی تمھارے جانے کا امکان نہیں۔ میں  نے دوبارہ نظر بھر کے بےحد توجہ سے اسکو دیکھا۔ 

اور اتنا کارپوریٹ کلایئنٹ سا لک تم میرے لئے یقیناً اپنا نہیں سکتیں۔ میرا لہجہ دھیما تھا۔ شاید تھکا ہوا بھی۔ اس نے ٹانگ سے ٹانگ ہٹائی۔ 

آج بھی لہجے میں اتنی ہی تھکاوٹ  لئے گھومتی ہو؟ جیسے چودہ سال قید با مشقت کی سزا یافتہ ہو۔ اسکا لہجہ کھرا تھا۔ دوٹوک بہت۔ نظر جیسے اندر تک اترتی تھی۔ بن کہے راز اگلوانے والی۔ 

پہلے سے بہت بہتر لگ رہی ہو۔ ہر لحاظ سے۔ اب کیا مسئلہ ہے؟

وہ جیسے بیزار سی ہوگئی تھی۔ میری ہتھیلیوں میں پسینہ اتر آیا۔

مجھ سے کچھ لکھا نہیں جا رہا آج  کل۔ کوئی تھیم نہیں بن رہی۔ کوئی سین نہیں۔

ہاں ہاں۔ کھولا تھا بلاگ تمھارا میں نے۔ اس نے گہری سبز آنکھیں مجھ پر جمائیں۔    سین ۲۴؟ بالکل فضول بکواس۔ کس نے  مشورہ  دیا رومانس لکھو؟۔ اس نےگویا ہاتھ  جھاڑے تھے۔ مجھ پر گھڑوں پانی پڑا۔ 

سین ۲۵ بھی پاسورڈ پروٹیکٹڈ۔ چلو کوئی نہیں۔مگر وہ برف زار کیا بلا تھی بھئی؟  اسکی بڑی بڑی مسکارا لگی آنکھیں ہنسنے سے چھوٹی ہو گئی تھیں۔ اور میری شرم کے مارے آنکھیں میچنے سے۔ 

بہت لائک اور کمنٹس آئے ہیں اس پر۔ واٹس ایپ بھر گیا میرا۔ میری منمناتی ہوئی آواز نکلی۔ 

اس پر گویا ہنسی کا دورہ سا پڑا۔ 

بس بس۔ ۔ مطلب کی بات پر آؤ۔  میں نے حیرت سے اسکا جائزہ لیا۔ خود اعتمادی اس کی پور پور ہر انداز سے جھلکتی تھی۔ 

ہاتھوں سے رنگز اتار کر اس نے سامنے ڈریسنگ کے شیشے پر رکھیں۔ سامنے رکھا کلینزنگ اٹھا کر ہتھیلی پر نکالا۔ ٹک کی آواز کے ساتھ ڈھکن بند کر کے اس نے منتظر نظروں سے میری طرف دیکھا۔ 

اتنے مشکل حالات گزار کر بھی تم اتنا پر امید کیسے رہ سکتی ہو؟ ڈریسنگ، لکس۔ ۔ لوگ کیا کیا باتیں نہیں کرتے تمھارے بارے میں۔ تمھیں اب خوف نہیں آتا۔ میں نے سوال کیا۔ 

ٹھیک ہے۔ میں دنیا کی فکر کر لیتی ہوں۔ امیج بناتی ہوں اپنا۔ تم دنیا سے کہو میرے حصے کی  جاب کرلے۔ پیسے میرے اکاؤنٹ میں ڈلوا دے۔ 

اس کے ہاتھ مہارت سے گولائی میں چہرے پر مساج کر رہے تھے۔ 

دنیا سے کہو، میرے حصے کی جنگ لڑ لے۔ میرے حصے کے رشتے نبھا لے،انکا احساس کرلے۔ میں دنیا کی فکر کر لیتی ہوں۔ 

میں نے نظر جھکا لی۔ چہرہ میک اپ سے مبرا ہو چکاتھا۔ آئی میک اپ ریموور سے اسموکی آئیز سادہ سبز آنکھوں میں بدل رہی تھیں۔

دنیاسے کہو، کچھ دیر کو رک جائے۔ جب تک میں باتیں بنانے والوں کے خیالات بدل دوں اپنے لئے۔ وہ ذرا اپنے کام دھندے روک دے۔ ٹھیک؟

میں نے گہری سانس بھری۔ پھیپڑوں کو آکسیجن ملنے لگی تھی۔ میں ہلکا سا مسکرائی۔ 

ڈر نہیں لگتا؟

بال اب فرنچ بن سے کھل کر نیچے آچکے تھے۔ ہاتھ برق رفتاری سےانکےالجھاؤ کھول رہےتھے۔ 

نہیں ۔ یک لفظی جواب آیا۔ 

آج کی ٹپ؟  میں نے کرسی کی بیک سے ٹیک لگائی۔ 

اس نے برش سامنے رکھ کر اب نیل پالش ریموور اٹھا لیا تھا۔ مصروفیت سی مصروفیت تھی۔ 

تمھاری اتری شکل دیکھ کر ٹپ کے بجائے تقریر کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ 

انتہا تھی صاف گوئی کی۔ میں نے جز بز ہو کر پہلو بدلا۔ ناخن شفاف ہونے لگے تھے۔ 

اس طرح طنز کروگی تو نہیں کرو بات۔ تمھیں پتہ ہے تمھارے علاوہ میں کسی سے اس طرح بات نہیں کرتی۔ انسان الجھے تو کس سے بات کرے؟کوئی تو ہو نا جو گرہیں  کھول دے۔ میں نے دفاعی لہجہ اپنایا۔ 

کوئی یہ گرہیں نہیں کھول سکتا سوائے اپنے آپ کے۔ اس نے جیسے چٹکیوں میں اڑایا تھا ۔

اپنے آپ کو خود اٹھاؤ۔  خود اپنا حوصلہ بنو۔ لوگ انگلی اٹھانے سے پہلے سو دفع سوچیں۔  زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا؟ یہ  چیز انسان کو بہت پازیٹو انرجی دیتی ہے۔ اور ہر ممکنہ پہلو پر غور کرنے کا حوصلہ بھی۔ دنیا کیا دیتی یے؟ طعنے،باتیں۔۔ بس؟

اس نے ہائی ہیلز اتار کر پیر گرم پانی  کے منی ٹب میں ڈبوئے تھے۔ میں اسکو غور سے دیکھا۔ 

بہت خیال کرنے لگی ہو اپنا۔ 

نہیں تو تم اپنی سو کالڈ دنیا سے کہ دو، آ کرمیرا خیال  کرلے۔ اس کےچہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ 

سارے راستے آسان ہوتے جا رہے ہیں تمھارے۔ جنگیں جیت رہی ہو سب۔ اچھی جاب،  اتنا کما رہی ہو جتنا آج کل لڑکے نہیں کما رہے۔ بے پناہ محبت ہے پاس تمھارے۔ اب دعا میں کیا مانگتی ہو؟

میں نے دلچسپی سے اسکو دیکھا۔  اس کے چہرے پر دنیا کی خوبصورت ترین  مسکراہٹ جگمگائی۔ 

میں مانگتی ہوں اپنے محرم کے پیچھے فجر کی نماز۔ اس کی آواز، سورہ یسین کی قرات۔ 

اس کے چہرے پر بچوں سی خوشی تھی۔

میں مانگتی ہوں اللہ مجھے بہت محبت سے دیکھے۔  اور۔ ۔ ۔ میری تین بیٹیاں ہوں۔ 

میرا دل سکون سے بھر گیا تھا۔ رگوں کو آکسیجن ملنے لگے تھی۔ 

یہ گرین لینس اتار دو۔  ویسے ہی ٹھیک ہے نیچرل۔ 

میں نے گرین لینس اتار کے کٹ میں رکھے اپنی سنہری آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ خود سے خود تک کا سفر تمام ہوا تھا۔ میں  نے چئیر کھسکائی اور ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے سے اٹھ گئی۔ 

By Tahreem Umar

Every story i create, creates me. I write to create myself.

18 replies on “تنویم”

دنیا سے کہو، میرے حصے کی جنگ لڑ لے۔ میرے حصے کے رشتے نبھا لے،انکا احساس کرلے۔ میں دنیا کی فکر کر لیتی ہوں۔

Bohat aala…

The lesson is so valuable, and is meant to be so effective….!!

Keep shining.

Liked by 3 people

“””
ٹھیک ہے۔ میں دنیا کی فکر کر لیتی ہوں۔ امیج بناتی ہوں اپنا۔ تم دنیا سے کہو میرے حصے کی جاب کرلے۔ پیسے میرے اکاؤنٹ میں ڈلوا دے۔
دنیا سے کہو، میرے حصے کی جنگ لڑ لے۔ میرے حصے کے رشتے نبھا لے،انکا احساس کرلے۔ میں دنیا کی فکر کر لیتی ہوں۔
دنیاسے کہو، کچھ دیر کو رک جائے۔ جب تک میں باتیں بنانے والوں کے خیالات بدل دوں اپنے لئے۔ وہ ذرا اپنے کام دھندے روک دے۔ ٹھیک؟
“””
کمال کی تحریر ۔ ۔ ۔ بہت بہت اعلٰی ۔ ۔ ۔ لیکن میں یہ تنویم محترمہ نے جو بلاگ اور پچھلی تحاریر کی ہنسی اُڑائی ہے ۔ ۔ اس سے متفق نہیں
🙂

Liked by 1 person

ہم میں سے ہر شخص کے دو ورژن ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو باہر نظر آتا ہے۔ اک وہ جو اندر چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ میرے بھی ہیں۔ مگر میرا ماننا ہے ہر شخص کو اپنے الجھاؤ خود سجھانے چاہیں۔ اپنی انسپریشن خود بننا چاہیے۔
دونوں کردار میں خود ہوں۔ ڈائلاگز بھی میرے ہیں۔ تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ 🙂

Liked by 1 person

Leave a comment